جنگ ہو اور جوان کام نا آئیں یہ ہو نہیں سکتا

اب تو جنگوں کا فیصلہ انہیں طول دیکر کیا جاتا ہے،
دشمن خود سے بھاری ہو تو اسے مختلف میدانوں میں مصروف رکھ کر اسکی قوت کو پاش پاش کیا جاتا ہے
اور یہ کوئی آج کے جرنیل نہیں کہتے یہ مصر و شام کے صحراؤں کے جرنیل اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی کا سبق تھا
کہ صلیبی لاؤ لشکر دیکھا تو علاقہ خالی کردیا ، پسپائی اختیار کی ، انہیں اپنی پسند کے میدانوں میں لیکر آئے اور پھر چھوٹے چھوٹے جیش اور فدائیوں کے ذرئعے انکی قوت صحراؤں میں تقسیم کرکے انہیں روند کر رکھ دیا ،
ایوبی کے پچپن سال گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر گزرے تو ایوبی کو فتح ملی ، اور ہم کیا ہیں ؟ ہماری اوقات کیا ہے ؟ ایوبی کے قدموں کی خاک بھی نہیں ،
جنگیں جزبات سے نہیں عقل سے لڑی جاتی ہیں
آپ کے پاس دو راستے تھے ایک یہ صدام بن جاتے جزبات سے لڑ جاتے اور عراق کے بعد بچی واحد مسلم ملٹری پاور بھی تباہ ہوجاتی
اور دوسرا یہ کہ ایوبی بننے کی کوشش کرتے ، اپنی قوت بچا بچا کر ضربیں لگاتے
آپ نے یہی کیا ، آپ امریکہ کو اپنی پسند کے میدان میں لیکر آئے ، اسے گھٹنوں تک دلدل میں گھسا دیا ، اور ایسی مار ماری کہ اب وہ رحم کی بھیک مانگ رہا ہے ،
یہ جنگ شروع سے پاکستان کی تھی ، پاکستان کے بقا کی تھی ، نہ تو افغانستان میں تیل ہے نہ امریکہ کی پھوپھی اور نہ کوئی بھی فرد واحد اس قدر اہم تھا کہ ایک سپر پاور کھربوں ڈالر خرچ کردے ،
ہم نے میدان باہر رکھے ، شہری علاقوں میں ہونے والے کولیٹرل ڈیمیج سے اس خطے کو بچایا ، ورنہ صدام بن جاتے تو قندوز کے پہاڑوں کے بجائے پشاور و لاہور کے گنجان آباد علاقوں پر بمباری سے کروڑوں جانیں چلی جاتیں
ایک طرف امریکہ ہمارے ساتھ کھیل رہا تھا کہ دوست بن کر ہمیں مارنے آیا
تو دوسری طرف ہم اس کے سب سے بڑے ہمدرد بن کر اسکی جڑیں کاٹ رہے تھے ،
یہ بدترین دھوکوں اور اعصاب کو چٹخا دینے والی جنگ تھی ،
تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان کی دو بڑی ایجنسیاں ایک دوسرے کے مشنز کو کاؤنٹر کر رہی تھیں ،
آئی ایس آئی کے اندر ایک اور آئی ایس آئی بنانا پڑ چکی تھی ، وہ امریکہ کہ جو سیٹلائیٹ سے لیس تھا ، پاکستان کے چپے چپے پر اپنا انٹیلیجنس نیٹ ورک قائم کرچکا تھا اس کے لئے وہ آئی ایس آئی تھی جو سامنے تھی ، سپر پاور کی ایجنسی سی آئی اے کے چیف کے ٹیبل پر جس آئی ایس آئی کا مکمل نیٹ ورک ، سیف ہاؤسز اور مشنز تک فراہم کردئے گئے تھے ،
وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ہیلن آف ٹرائے کی طرح کے آئی ایس آئی کے اس گھوڑے کے اندر کیا کچھ چھپا ہے ،
آئی ایس آئی کے اندر کی آئی ایس آئی مسلسل امریکہ کی جڑیں کاٹتی رہی ، دیمک جیسے حقیر کیڑے کا موازنہ عالی شان درخت سے کیا جائے تو کم عقل ہمیشہ درخت کو طاقتور سمجھیں گے پر صرف دانا ہی جانتے ہیں کہ
یہ دیمک جب کسی درخت کو چاٹنا شروع ہوجائے تو اسے گرائے بنا نہیں رہتی
اور یہ دیمک روس کو توچاٹ ہی چکی ہے ،
امریکہ کی جڑیں بھی کھوکھلی ہو چکی ہیں۔

breaking newsbreaking news pakistan in urdubreaking news pakistan todaydaily urdu newsdawndawn livedawn newsdawn news pakistandawn newspaper onlinedawn tvhighlightslatest tvnewsnews alert pakistanpakistan newspaperspakistani newssports newstv tv tv tv tvurdu newsurdu news paperurdupost.com.pkجنگ ہو اور جوان کام نا آئیں یہ ہو نہیں سکتا
Comments ()
Add Comment