بدنام زمانہ “ایبٹ آباد آپریشن” کو آج 11 برس بیت گئے.

یہ شب خون جہاں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا سبب بنا، وہاں پاکستان کی خود مختیاری اور “ناقابل تسخیر” دفاعی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔

( مورخہ 2 مئی 2022ء) آج سے 11 سال پہلے پاکستان کی سرزمین پر وہ واقعہ رونما ہوا جس نے پاکستان کی عزت و خود مختاری اور دفاعی صلاحیت پہ ان گنت سوالیہ نشان لگا دیے تھے جن کے جوابات آج بھی تشنہ تکمیل ہیں۔ 2 مئی 2011ء کو امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں نے ایبٹ آباد میں آپریشن کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

سی آئی اے کی طرف سے جاری تفصیل کے مطابق طویل عرصے تک اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کی ریکی کی گئی اور آپریشن میں شریک ٹیم کو پہلے مکمل تربیت دی گئی، امریکا کے سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پنیٹا اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے رات 1 بج کر 25 منٹ پر آپریشن کی منظوری دی جس کے بعد 1 بج کر 51 منٹ پر ہیلی کاپٹرز نے افغانستان سے پرواز کی۔ ساڑھے 3 بجے ہیلی کاپٹرز ایبٹ آباد کمپاؤنڈ پہنچے جن میں سے ایک لینڈنگ کے دوران گر کر تباہ ہو گیا۔ اس دوران امریکا میں اعلیٰ حکام سچویشن روم میں آپریشن کی مانیٹرنگ کرتے رہے۔ رات 3 بج کر 39 منٹ پر اسامہ بن لادن کو کمپاؤنڈ کی تیسری منزل پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

3 بج کر 53 منٹ پر اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کی گئی۔ 4 بج کر 5 منٹ پر پہلا ہیلی کاپٹر واپس افغانستان کے لئے پرواز کر گیا۔ 4 بج کر 8 منٹ پر دوسری ٹیم نے کریش لینڈنگ کرنے والے ہیلی کاپٹر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ 4 بج کر 10 منٹ تک امریکی ٹیم نے کمپاؤنڈ سے بڑے پیمانے پر مواد تحویل میں لے لیا۔ 4 بج کر 10 منٹ پر بیک اپ ہیلی کاپٹر باقی رہ جانے والی ٹیم اور مواد کو لے کر افغانستان روانہ ہو گیا۔ 5 بج کر 53 منٹ پر پوری ٹیم افغانستان میں لینڈ کر گئی جہاں امریکی ایڈمرل مک راون نے ان کا خیر مقدم کیا۔ 7 بج کر 1 منٹ پر امریکی صدر براک اوباما کو اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کی گئی ۔

یہ تو تھیں سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی سرکاری تفصیلات۔ جبکہ مغربی میڈیا، چاوید چودھری کے کالم اور دیگر اخبارات کی مدد سے “نوائے اوچ” نے جو رپورٹ تیار کی ہے، اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں ۔

جلال آباد کے امریکی ائیر بیس پر 4 ہیلی کاپٹر تیار کھڑے تھے، دو بلیک ہاک تھے اور دو چنیوک۔ ہیلی کاپٹروں میں 25 کمانڈوز سوار تھے۔ یہ چاروں ہیلی کاپٹر یکم مئی 2011ء کی رات 11 بج کر 10 منٹ پر جلال آباد سے اڑے اور 10 منٹ میں پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے۔ ہیلی کاپٹروں کی حفاظت کے لیے امریکی طیاروں نے افغان حدود میں پروازیں شروع کر دیں۔ ہیلی کاپٹرز دریائے کابل کے اوپر پرواز کرتے ہوئے چکدرہ آئے۔ وہاں سے کالا ڈھاکا کے گاؤں کندر حسن زئی پہنچے۔ دو ہیلی کاپٹر وہیں رک گئے اور دو آگے روانہ ہو گئے۔ یہ دونوں ہیلی کاپٹر 12 بج کر 30 منٹ پر بلال کالونی ایبٹ آباد پہنچ گئے۔ کمانڈوز رسیوں کی مدد سے اسامہ بن لادن کے گھر اترے۔ دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔

آدھے انیکسی کی طرف چلے گئے اور آدھے لادن کمپاؤنڈ میں داخل ہو گئے۔ اسامہ بن لادن نے کلاشنکوف اٹھا لی اور الماری سے ہینڈ گرنیڈ نکال لیا۔ کمانڈوز نے گولی چلا دی اسامہ 12 بج کر 39 منٹ پر گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ ان کی اہلیہ ایمل زخمی ہو گئی۔کمانڈوز کے دوسرے دستے نے انیکسی میں اسامہ کے صاحبزادے خالد بن اسامہ، مدد گار ابو احمد الکویتی، کویتی کے بھائی ابرار اور ان کی اہلیہ بشریٰ کو گولیوں سے اڑا دیا۔ 12 بج کر 53 منٹ پر اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق ہوئی۔ کمانڈوز نے کمپاؤنڈ میں موجود کمپیوٹرز، فائلیں، کتابیں، ڈائریاں اور سی ڈیز تھیلوں میں بھریں اور واپسی کے لیے تیار ہو گئے۔ 1 بج کر 6 منٹ پر ہیلی کاپٹر واپس آئے۔ ایک ہیلی کاپٹر کی دم گھر کی باؤنڈری وال سے ٹکرا گئی۔ دھماکا ہوا اور مقامی آبادی جاگ گئی۔ لوگوں کو پشتو میں بتایا گیا ’’آپ پیچھے ہٹ جائیں، اسپیشل آپریشن ہو رہا ہے،آپ کو گولی مار دی جائے گی‘‘ لوگ واپس بھاگ گئے۔

کمانڈوز دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے، متاثرہ ہیلی کاپٹر کو بم سے اڑا دیا گیا۔ ہیلی کاپٹر روانہ ہو گئے، دھماکے کی آواز سے پولیس اور فوج کے اہلکار متوجہ ہو گئے، یہ لوگ 1 بج کر 15 منٹ پر وہاں پہنچے، یہ گھر میں داخل ہوئے، زخمی خاتون کو عربی بولتے دیکھا، وہاں لاشیں بھی تھیں، خاتون سے انکوائری کی۔ پتہ چلا کہ بیڈ روم میں اسامہ یمنی کا خون بکھرا ہوا ہے۔ 2 بج کر 7 منٹ پر لیفٹیننٹ کرنل (نام غالباً عابد تھا) نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فون پر اطلاع دے دی۔ آرمی چیف نے ائیر چیف کو فون کیا۔ ائیر چیف نے ہائی الرٹ جاری کر دیا۔ اس عمل میں 43 منٹ خرچ ہو گئے۔ ہمارے ایف 16 اڑے لیکن امریکی ہیلی کاپٹرز اس دوران کالا ڈھاکا میں ری فیولنگ کر کے جلال آباد واپس پہنچ چکے تھے۔

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے رات 3 بجے وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور سیکریٹری خارجہ کو اطلاع دے دی۔ صبح 5 بجے ایڈمرل مائیک مولن نے جنرل کیانی کو فون کیا اور آپریشن کی تصدیق کر دی۔ آرمی چیف نے صبح 6 بج کر 45 منٹ پر صدر پاکستان آصف علی زرداری کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ یہ 36 منٹ کا آپریشن پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن گیا۔ ہمارے نظام کی چار خوفناک خامیاں دنیا کے سامنے آ گئیں۔

پہلی خامی یہ کہ دنیا کا موسٹ وانٹیڈ پرسن آٹھ سال تک پاکستان کے حساس علاقے میں چھپا رہا۔ اس نے اس دوران شادیاں بھی کیں۔ بچے بھی پیدا کیے اور یہ مکمل زندگی بھی گزارتا رہا اور پاکستان کے کسی ادارے کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

دوسری خامی یہ کہ امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے پاکستان آئے۔ کنٹونمنٹ ایریا میں آپریشن کیا اور بحفاظت واپس چلے گئے اور ہمیں علم نہ ہو سکا۔ اگر بلال کالونی میں امریکی ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش نہ آتا تو شاید پاکستانی حکام کو مائیک مولن کے فون سے پہلے اس آپریشن کی اطلاع نہ ہوتی۔ تیسری خامی یہ کہ اطلاع کے 43 منٹ بعد تک بھی پاکستان کی طرف سے ایف سولہ طیارے نہیں اڑائے جا سکے اور چوتھی خامی یہ کہ ہمارا سسٹم امریکی ہیلی کاپٹروں کی پرواز کا اندازہ نہیں کر سکا۔ وہ آئے۔ آپریشن کیا اور واپس چلے گئے۔

ہمارے حساس اداروں کو محسوس ہوا کہ امریکا کو ہمارے کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی مدد حاصل تھی کیونکہ یہ آپریشن مقامی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہ احساس کیوں پیدا ہوا؟

اس کی بھی کئی وجوہات تھیں۔ مثلاً ایبٹ آباد افغانستان سے دور اور مشکل علاقہ ہے۔ یہاں آپریشن مکمل ریکی کے بغیر ناممکن تھا اور ریکی کی سہولتیں طاقت ور لوگوں کی مدد کے بغیر مشکل تھیں۔ آپریشن سے قبل ہیلی کاپٹروں کے راستے میں آنے والے اونچے درختوں کی شاخ تراشی اور کٹائی کی گئی۔ یہ کٹائی کس نے کرائی؟ آپریشن کے وقت ایبٹ آباد کی بجلی بند کر دی گئی۔ یہ بجلی کس نے بند کرائی؟ کالا ڈھاکا میں ہیلی کاپٹروں کے لیے پٹرول کا بندوبست کیا گیا تھا۔ یہ بندوبست بھی آسان کام نہیں تھا اور ہیلی کاپٹروں کے لیے محفوظ ترین روٹ کا تعین بھی انسانی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہ سوالات اہم تھے۔ ہمارے اداروں نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا شروع کیے تو دو نام سامنے آ گئے۔

پہلا شخص شکیل آفریدی تھا۔ یہ شخص خیبر ایجنسی میں میڈیکل انچارج تھا۔ اس نے اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے کے لیے بلال کالونی میں پولیو کی جعلی مہم چلائی۔ جعلی ورکرز لادن کے گھر داخل کرائے۔ خون کا نمونہ لیا اور نمونے نے لادن کی موجودگی کی تصدیق کر دی۔ امریکیوں نے بلال کالونی میں لادن کے گھر کے نزدیک کرائے پر گھر بھی لیا۔ یہ وہاں سے لادن کے گھر کی نگرانی کرتے رہے۔ شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا۔ آفریدی نے اپنا جرم تسلیم کر لیا۔

دوسرا نام امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا تھا۔ حسین حقانی 2002ء سے امریکا میں رہ رہے۔ یہ اس دوران امریکا کے ان اداروں اور تھنک ٹینکس میں کام کرتے رہے جنہیں سی آئی اے فنڈنگ کرتی تھی۔ صدر آصف علی زرداری نے امریکی خواہش پر انہیں اپریل 2008ء میں سفیر بنا دیا۔ یہ پاکستان مخالف امریکی بل ’’کیری لوگر بل‘‘ کے خالق بھی سمجھے جاتے تھے۔ یہ آصف علی زرداری اور سی آئی اے کے انتہائی قریب تھے۔ یہ ایک طرف صدر سے براہ راست رابطے میں رہتے تھے اور یہ دوسری طرف ڈائریکٹر سی آئی اے لیون پنیٹا کو بھی ڈائریکٹ فون کر لیتے تھے۔ پاکستان کے حساس ادارے ان کے کردار سے مطمئن نہیں تھے۔ حسین حقانی کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہوئیں تو انکشافات پر انکشافات ہوتے چلے گئے۔

امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے اور ایماندار افسر تھے۔ وہ ملٹری اتاشی بننے سے قبل وزیر اعظم شوکت عزیز اور سید یوسف رضا گیلانی کے ملٹری سیکریٹری رہے تھے۔ یہ معلومات جمع کرتے رہے اور پاکستان بھجواتے رہے۔ معلومات انتہائی حساس تھیں۔ امریکا نے کس طرح پاکستان میں جاسوسی کا نیٹ ورک بنایا۔ امریکی جاسوسوں کو کس طرح ویزے جاری کیے گئے۔ یہ لوگ کس طرح حساس آلات پاکستان لاتے رہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کے کس کس عہدیدار نے ان کی مدد کی۔ وفاق کا کون کون سا وزیر، ایوان صدر کا کون کون سا کارندہ اور وزیر اعظم کے اسٹاف کا کون کون سا رکن ان لوگوں کے ساتھ ملا ہوا تھا، کس مذہبی سیاسی جماعت کے لوگ ان کے رابطے میں تھے اور کس نے کتنی رقم وصول کی اور وہ رقم کس اکاؤنٹ میں رکھی گئی۔

بہرحال 2 مئی 2011 کی شب امریکہ کی جانب سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا۔ امریکی ہیلی کاپٹرز شب کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر ایبٹ آباد میں گھسے اور القاعدہ کے اہم مطلوب سربراہ اسامہ بن لادن کا خاتمہ کر کے چلے گئے، لیکن اپنے پیچھے پاکستانی خود مختاری اور سلامتی پر بہت سے سوالات چھوڑ گئے۔ انہی سوالات کا جواب جاننے کے لئے حکومت کی جانب سے 2011ء میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایبٹ آباد آپریشن کے اصل حقائق منظر عام پر لانے کے لئے جسٹس جاوید اقبال (موجودہ چیئرمی نیب) کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن قائم کیا تھا جس نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا سمیت 200 سے زائد فوجی افسران ، سیاست دانوں اور اعلی حکام کے بیانات قلمبند کئے تھے لیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے بیانات قلمبند نہیں کروائے تھے۔

ایبٹ آباد کمیشن نے وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضاگیلانی کو اپنی رپورٹ 4 جنوری 2013ء کو پیش کی تھی جسے اب تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں ہونے والا امریکی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس کے بارے میں قوم آج تک تذبذب کا شکار ہے۔ اسے آپریشن کے حوالے سے مسلسل اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ عوام کو نہ صرف اصل حقائق سے آگاہی حاصل ہو سکے بلکہ مغربی میڈیا کے من گھڑت نئے نئے انکشافات کا سدباب بھی کیا جا سکے۔

Comments ()
Add Comment