امریکی بحریہ کی جانب سے بعض دستاویز منظرِعام پر آئی ہیں

واشنگٹن: امریکی بحریہ کی جانب سے بعض دستاویز منظرِعام پر آئی ہیں جس کے تحت وہ ایک ایسی روبوٹک آبدوز بنانے پر کام کررہی ہے جو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے تحت کام کرے گی اور ازخود اپنے ہدف کو تباہ بھی کرسکے گی۔

اس منصوبے کو ’کلاز‘ کا نام دیا گیا ہے اور دستاویز کے مطابق اس میں جدید ترین سینسر، سونار سسٹم اور الگورتھم ہوگا جسکی بدولت یہ اپنے اہداف بالخصوص کسی دشمن آبدوز کو ازخود تباہ بھی کرسکے گی لیکن حیرت انگیز طور پر اسے ’ایکو وائجر‘ کا بے ضرر نام دیا گیا ہے۔

اسے پانی کے اندر ’غیر معمولی بڑی، غیر انسانی زیرَ آب وھیکل‘ یعنی ایکس ایل یو یو وی کے درجوں میں شامل کیا جاتا ہے اور امن و جنگ میں یہ دونوں طرح کے مشن انجام دے سکتی ہے۔

اس میں اندرونی گنجائش کے لیے اسے خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جبکہ بوئنگ کمپنی کے مطابق اس جناتی آبدوز کو توانائی دینے کے لیے خاص طرح کی بیٹری ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جسے ایک چھوٹے بجلی گھر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

جدید ترین خود کار آبدوز کئی ہفتوں بلکہ مہینے تک انسانی مداخلت کے بغیر پانی کے اندر رہ سکے گہی اور یہ خاصیت اسے انسان بردار آبدوزوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اگرچہ بوئنگ کمپنی انسان کے بغیر چلنے والی آبدوزوں پر عرصے سے کام کررہی ہے لیکن امریکی بحریہ کی ایما پر اب اسے مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کی مدد سے خود کار بنایا جارہا ہے۔

آبدوز اے آئی کی بنیاد پر اپنا راستہ تلاش کرے گی اور اسی کی بدولت دشمن کی شناخت کرکے اسے ٹھکانے لگانے کا کام بھی کرے گی۔ آبدوز کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کسی بڑے بحری جہاز کے ذریعے سمندر میں اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ از خود پانی میں اترجائے گی۔

ڈیزائن کے تحت آبدوز کی لمبائی 51 فٹ ہوگی جس میں 2000 مکعب فٹ کی گنجائش رکھی جائے گی۔ توقع ہے کہ یہ خودکار آبدوز ایک جانب تو بحریہ میں آبدوز کی تیزی سے گرتی ہوئی اہمیت کو دوبارہ زندہ کرے گی اور دوسری جانب خودکار آبی جنگ کا ایک نیا ہتھیار بن کر ابھرے گی۔

breaking newsbreaking news pakistan in urdubreaking news pakistan todaydaily urdu newsdawndawn livedawn newsdawn news pakistandawn newspaper onlinedawn tvhighlightslatest tvnewsnews alert pakistanpakistan newspaperspakistani newssports newstv tv tv tv tvurdu newsurdu news paperurdupost.com.pkامریکی بحریہ کی جانب سے بعض دستاویز منظرِعام پر آئی ہیں
Comments ()
Add Comment