افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کیاہوا

صرف پچھلے ایک ماہ کے دوران افغانستان میں پاکستان مخالف طالبان ( ٹی ٹی پی ) کے مارے جانے والے چند بڑے کمانڈروں کے نام۔

1۔ خلیفہ منصور ۔ شیخ خالد حقانی ( نائب امیر )
2۔ قاری سیف اللہ محسود
3۔ سیف یونس پشاوری
4۔ مرسلین ۔ ٹی ٹی پی بھٹانی گروپ کا کمانڈر
5۔ انعام اللہ ۔ بانی انعام اللہ گروپ
6۔ بیت اللہ بلال
7۔ کفایت اللہ ۔ بالی گروپ کا کمانڈر

افغانستان میں ٹی ٹی پی پر تباہی آئی ہوئی ہے۔ ڈی ڈبلیو نیوز سمیت دنیا کی کئی بڑی نیوز ایجنسیاں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ افغانستان میں پاکستان مخالف طالبان کو کون قتل کر رہا ہے؟؟

آپ کو کیا لگتا ہے کہ کون کر رہا ہوگا؟؟
سی آئی اے، را یا افغان ایجنسیاں؟
وہ تو ان کو پال رہی ہیں پاکستان کے خلاف۔

یقیناً ان پاکستان دشمنوں کے خلاف پاکستانی ایجنسیاں متحرک ہیں اور بہت بڑا کام کر رہی ہیں۔ ان دہشت گردوں کی موت میں پاکستانیوں کی زندگی ہے۔ ہم اس پر اپنے اداروں کو کیوں داد نہیں دیتے؟
شائد اس لیے کہ ہم سخت ناشکرے اور بدبخت ہیں۔

اج احسان اللہ احسان کے بارے میں ذرا کھل کر بات کرتے ہیں۔
دنیا میں کون جانتا ہے کہ احسان اللہ احسان کن حالات میں اور کیسے رہا ہوا ہے، بھاگا ہے یا چھوڑا گیا ہے؟
اور یہ بھی کہ کب اور کیوں؟؟

صرف اندازے ہی اندازے ہیں اور پاکستان دشمنوں صحافی اور سرخے خاص طور پر اس پر اپنی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی کچھڑی پکا رہے ہیں تاکہ پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کی جا سکیں۔

البتہ جو چیز ہم یقینی جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ احسان اللہ احسان کو وعدے اور یقین دہانی پر گرفتار کیا گیا تھا کہ اس کو سزا نہیں دی جائیگی اور اس کا ٹرائل نہیں ہوگا۔ ریاست ایسے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کرتی ہے تاکہ دیگر دہشت گردوں کے پاس ہتھیار ڈالنے اور خود کو ریاست کے حوالے کرنے کا آپشن باقی رہے۔
بلوچ فراریوں کو اسی اصول پر سرنڈر کیا گیا تھا اور الحمد اللہ بلوچستان میں اب بڑی حد تک سکون ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ پوری دنیا بات چیت کر رہی ہے کیا اس کو کوئی غلط کہتا ہے؟؟

احسان کی گرفتاری کے بعد ٹی ٹی پی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بلکہ اس کے بعد حقیقتاً ٹی ٹی پی بطور تنظیم منتشر ہوئی اور کئی چھوٹی چھوٹی ذیلی تنظمیں بن گئیں نئے ناموں سے۔

پشاور ھائی کورٹ نے جن دہشتگردوں کو رہا کیا تھا وہ دہشت گرد افواج پاکستان نے سینکڑوں ہزاروں جانیں دے کر پکڑے تھے۔ وہ توبہ کر کے نہیں آئے تھے اور ان پر جرم ثابت ہوگیا تھا۔ ان کو سزائیں سنائی گئیں۔

اور پشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ کر وہ ساری سزائیں معطل کر دیں کہ فاٹا انضمام کے بعد ان دہشت گردوں کا ٹرائل نئے قوانین کے تحت ہونا چاہئے۔ یعنی ٹیکنیکل بنیادوں پر۔
جب کہ ان دہشت گردوں کو جب سزائیں سنائی گئیں تھیں اس وقت انضمام نہیں ہوا تھا۔
صاف اور سیدھی بات ہے کہ پشاور ھائی کورٹ نے ہمیشہ کی طرح دہشت گردوں کو سپورٹ کیا اور اب بتایا جاتا ہےکہ ان میں سے آدھے واپس افغانستان پہنچ چکے ہیں اور دوبارہ پاکستان کے خلاف متحرک ہیں۔
اس پر کوئی بات کیوں نہیں کی کرتا؟

ان دہشت گردوں میں ایسی کون سی خوبی تھی جو ان کی اس طرح رہائی کو آپ سب نے اتنی آسانی سے برداشت کر لیا؟؟

نوٹ ۔۔۔ یہاں میں پھر دہرا دوں کہ احسان اللہ احسان اے پی ایس میں ملوث نہیں تھا بلکہ جب یہ واقعہ ہوا تو اس نے اس کی مذمت کی تھی بطور ترجمان جس پر اس کو کمانڈروں سے ڈانٹ پڑی اور جس کے بعد اس نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ البتہ جو اے اپی ایس میں ملوث تھے ان کو افغان سرخے ( این ڈی ایس ) آج بھی پال رہے ہیں اور الحمد اللہ ان میں سے کچھ کو چند دن پہلے جہنم واصل کیا گیا ہے۔ لیکن مجال ہے جو فضل ایڈوکیٹ جیسے نمک حرام ان کے بارے میں افغانستان سے سوال کریں!

breaking newsbreaking news pakistan in urdubreaking news pakistan todaydaily urdu newsdawndawn livedawn newsdawn news pakistandawn newspaper onlinedawn tvhighlightslatest tvnewsnews alert pakistanpakistan newspaperspakistani newssports newstv tv tv tv tvurdu newsurdu news paperurdupost.com.pkافغانستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ کیاہوا
Comments ()
Add Comment